Translate This Site In Your Language

مطلوبہ مواد لکھیں

بدھ، 3 جون، 2020

شهداء سنده

وادئ سندھ میں شیعہ کشی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی یہاں اسلام کی تاریخ ۔ اس خطے میں شیعہ نسل کشی کا سب سے پہلا واقعہ عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کے دور میں ہوا ، جب اسکے لشکر کے ہاتھوں حضرت عبد اللہ شاہ غازی رح اور انکے چالیس ساتھیوں کا قتل ہوا ۔ یہ آٹھویں صدی کی بات ہے ۔ اسوقت سے لیکر ابتک تسلسل سے شیعہ نسل کشی کے واقعات جاری ہیں ، جنکے نتیجے میں شیعہ دیہات کے دیہات اجڑ گئے ۔ کتب خانے تاراج ہو گئے ۔ شیعہ تقیہ پر مجبور ہوتے رہے ۔

تب سے لیکر اب ، 2020 تک شیعہ نسل کشی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما رہے ۔ ریاستی سطح پر کبھی شیعوں کیخلاف جذبات کو ابھارا گیا جسکی ایک مثال اورنگزیب عالمگیر کی شیعہ مخالف "فتاوی عالمگیری" ہے ۔ کبھی تکفیری علماء رسائل و کتب لکھتے رہے ۔ سترہویں صدی میں برصغیر میں وہابیت کے آغاز و نفوذ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ کبھی احمد شاہ ابدالی جیسے حکمرانوں نے شیعوں کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ اٹھارہویں صدی میں وہابی لشکر نے جب کربلا و نجف پر حملہ کیا اور پانچ ہزار کے قریب شیعوں کو شہید کیا تو گویا دنیا بھر میں شدت پسندوں کو شیعوں کے قتل کا اجازت نامہ مل گیا ۔

سترہویں صدی میں دار العلوم دیوبند کے مولانا رشید گنگوہی کے شدید شیعہ مخالف فتووں نے شیعہ نسل کشی کے عمل کو مزید تیز کر دیا حتی کہ 1944 میں تنظیم اہلسنت کے نام سے دیوبندی جماعت بنائی گئی ، جو موجودہ سپہ صحابہ اہلسنت و الجماعت کی ابتدائی ترین شکل ہے ۔

پاکستان بننے کے فورا بعد یہ تنظیم شیعوں کیخلاف متحرک ہو گئی، پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں ہی اس تنظیم نے :
1949 اور 50 میں نارووال میں عزاداری پر حملے کئے
1951 میں پنجاب اسمبلی کے شیعہ امیدواروں کیخلاف تکفیری کیمپین چلائی
1955 میں پنجاب میں 25 مقامات پر شیعوں پر حملے کئے جسکے نتیجے میں سینکڑوں شیعہ زخمی ہوئے
1957 میں ملتان میں مظفر گڑھ میں محرم کے جلوس پر حملہ کیا
1958 میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا باقاعدہ آغاز کیا اور بھکر میں ایک شیعہ خطیب آغا محسن کو شہید کیا

اب آئیں 1963میں جسکے لئے میں نے یہ پوسٹ لکھی ہے اور جو سال شیعوں کے خون سے بھرا پڑا ہے :

اس گروہ نے جون 1963 میں بھاٹی دروازہ لاہور عزاداری کے جلوس پر حملہ کیا ، کئی شیعہ شہید اور متعدد زخمی ہوئے
3 جون 1963 کو سندھ کے ضلع خیر پور کے گائوں ٹھیری میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 120 شیعہ عزاداروں کو کلہاڑیوں اورتلواروں سے ذبح کیا گیا ۔

آج یعنی 3 جون کو انہی مظلوم پاکستانی شیعوں کی برسی ہے

ریاستی ہرکاروں کو اس تاریخی عمل سے کوئی سبق نہیں ملا ، اور انہوں نے مسلسل متشدد گروہوں کی پشت پناہی جاری رکھی حتی کہ 80 کی دہائی میں تنظیم اہلسنت کو اپ گریڈ کر کے انجمن سپہ صحابہ لانچ کر دی گئی ۔ 90 کی دہائی میں تزرویراتی گہرائی کے مفروضے کے خالق جنرل اسلم بیگ و حمید گل نے کٹر متشدد مذہبی گروہوں کو مسلح کرنا شروع کیا ، جسکا سب سے زیادہ فائدہ انجمن سپہ صحابہ نے اٹھایا ۔

اسکے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ 90 کی دہائی سے آج تک پاکستان میں پچیس ہزار کے قریب شیعہ شہید ہو چکے ہیں ، جن میں 300 کے قریب ڈاکٹرز تھے اور جن میں ایک ڈاکٹر شہید ثریا کھوسہ کی 6 جون کو سولہویں برسی بھی ہے ۔ شیعوں کی نسل کشی کا یہ مختصر جائزہ اس حقیقت کو بھی عیاں کرتا ہے کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی 80 کی دہائی سے ہی شروع نہیں ہوئی ، نہ ہی کسی قسم کی سعودی / ایران پراکسی کا نتیجہ ہے ۔ بلکہ یہ اس نفرت ، بغض و عداوت کا نتیجہ ہے جو صدیوں سے محبانِ اہلیبیت ع کیخلاف سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے ۔

شیعوں کیخلاف نفرت پر مبنی یہ لاوا آج بھی دہک رہا ہے ، پچھلے چند ماہ سے یہ لاوا سینوں سے نکل کر عملی شکل جاختیار کر رہا ہے جسکا نتیجہ آئے دن شیعہ کلنگ کی صورت میں نکل رہا ہے ۔ شیعوں کی تکفیر کرنے والے اور انکے خون کو حلال سمجھنے والے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں ۔ کھلے عام شیعوں کو قتل کی دھمکیاں دینے والے سرکاری پروٹوکول میں عمرے کرنے جا رہے ہیں ۔ شیعہ نسل کشی کی یہ تاریخ جو اس خطے میں صدیوں پر محیط ہے ، شیعوں کو کہاں لے جائے گی اس سوال کا فوری جواب دینا مشکل ہے ۔ لیکن جس سوال کا جواب نہایت آسان ہے وہ یہ کہ کسی ملک کی قریبا 20 فیصد آبادی کو مسلسل جبر و استحصال کا شکار کیا جائے ، انکی جان تک محفوظ نہ ہو یہ صرف اس گروہ کیلئے نہیں بلکہ اس پورے ملک کیلئے خطرہ ہوتا ہے ۔

جون 1963 میں شہید ہونے والے بھاٹی دروازے کے عزاداروں اور خیر پور ٹھیری کے شہید عزاداروں کی بلندئ درجات کیلیے الفاتحہ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں