Translate This Site In Your Language

مطلوبہ مواد لکھیں

منگل، 9 جون، 2020

آية الله العظمي سيد علي حسيني سيستاني دام ظله

میری اتنی بساط تو نہیں کہ میں مرجع دینی کبیر سید علی حسینی سیستانی جیسی شخصیت کے علمی مرتبے پر کچھ لکھوں لیکن چند ایک مشاہدات ہیں جو میں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ان کے  چند فتاوی کے نتائج دیکھ کر اخذ کیے۔ یہ وہ فتوے تھے جن کا تعلق ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات سے تھا۔ میرا مشاہدہ یہ رہا کہ عراق جنگ کے بعد ان کے "ووٹ دینا واجب ہے" کے فتوے سے لیکر داعش کے خلاف مشہور فتوی دفاع تک اور حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے دیئے گئے ان کے فتوے تک، ہر فتوے کا نتیجہ جہان تشیع کیلیے خیر اور اتحاد کی صورت سامنے آیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے ان تمام فتووں کے پیچھے گہرا تدبر اور مستقبل کی پیش بینی کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔ 
چند برس قبل داعش نے اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر اربعین واک پر حملوں کو اعلان کیا تو امیر المومنین علیہ السلام کے اس نوکر نے اربعین پر عراق آمد کیلئے ویزہ کی شرط ختم کرنے کا اعلان کرکے کرہ ارض پر سب سے بڑے انسانی اجتماع کی مثال قائم کردی جس نے جہان تشیع میں مودت و جذبیت اور اتحاد کی نئی روح پھونک دی۔ ہر قسم کے اختلاف سے بالاتر ہوکر ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہ اربعین سید الشہداء علیہ السلام کے اس اجتماع میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کر سکے اور جو شامل نہ ہوسکے وہ ملنگ مزاج عراقیوں کی فراخدلی اور خدمت کو خوب خراج تحسین پیش کر سکے۔ 

گززشتہ دنوں بی بی سی اُردو پر مرجعیت کے حوالے سے شائع ہونے والے تفصیلی مضمون میں جب سید سیستانی کی اثر انگیز شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بیان کیا گیا کہ جہان تشیع میں ان کے مقلدین کی تعداد سب سے زیادہ ہے تو یہ ذکر کرتے ہوئے ان کے علمی شجرے کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کیا کہ سید علی حسینی سیستانی کو پچھلی صدی کے نامور ترین مراجع کا طالبِ علم ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ جن میں اہم ترین آیت اللہ العظمیٰ سیّد ابو القاسم الخوئی، آیت اللہ العظمیٰ محسن الحکیم اور آیت اللہ العظمیٰ سیّد حسین طباطبائی بروجردی جیسے مجتہدین شامل ہیں۔ یوں اہم ترین مراجع کی لڑی بروجردی، محسن الحکیم اور قاسم الخوئی سے ہوتی ہوئی سیستانی تک پہنچتی ہے۔
۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مراجع کی اس علمی لڑی سے تعلق رکھنے والے اس بزرگ کے فتاوی پر امیر المومنین علیہ السلام کی ایسی نظر کرم ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اول تو امیر المومنین علیہ السلام کا یہ نوکر زیادہ منظر عام پر آیا نہیں مگر جب بھی آیا تو جہان تشیع کیلیے خیر، اتحاد اور تحفظ کی نوید لیکر آیا۔ میں جب جب سید سیستانی کے بارے میں کچھ پڑھتا ہوں تو مجھے بہت عرصہ قبل ایک عالم دین کی کہی بات یاد آجاتی ہے کہ سید سیستانی جیسی شخصیات کا یہ تخصص ہوتا ہے کہ یہ اکثر منظر عام پر آئے بغیر شر کی جڑ کاٹ دیتی ہیں۔ 
۔
سید علی حسینی سیستانی کی انہی خصوصیات کی وجہ سے مجھ جیسے بہت سے "رسمی شیعہ" انہیں اپنا مرشد مانتے ہیں، ان سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں۔ پروردگار عالم بحق اہلیبیت علیھم السلام، نجف الاشرف میں موجود مولا امام زمانہ عج کے اس خادم کو طول عمر عطا فرمائے تاکہ وہ جہان تشیع کیلیے خیر و اتحاد کا باعث بنتے رہیں اور مستقبل کی بہترین پیش بینی کرتے ہوئے شر کی جڑ کاٹتے رہیں۔
۔
نور درویش

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں