#ماه_رمضان 🌙
#بہار_قرآن 🌺📗🌺
گیارھواں پارہ
اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ یونس مکمل
🔰 (۱) سورۂ توبہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ منافقین کی مذمت
۲۔ حقیقی شہدا کی نو صفات
۳۔ سابقون الاولون سے اللہ کی رضایت کا اعلان
۴۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین صحابہ
۵۔ مومنوں کو 'صادقین' کے ساتھ ہوجانے کا حکم
۱۔ منافقین کی مذمت:
اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے نبی(ص) کو خبر دے دی،
نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی،
اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا،
رسول اکرم(ص) کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا اور منافقین سے منہ پھیرلینے کا حکم دے دیا گیا۔
۲۔ حقیقی شہدا کی نو صفات:
(۱)توبہ کرنے والے
(۲)عبادت کرنے والے
(۳)حمد کرنے والے
(۴)روزہ رکھنے والے
(۵)رکوع کرنے والے
(۶)سجدہ کرنے والے
(۷)نیک کاموں کا حکم کرنے والے
(۸)بری باتوں سے منع کرنے والے
(۹)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے
۳۔ سابقون الاولون سے اللہ کی رضایت کا اعلان
روایت میں آیا کہ سابقون اولون کا مصداق حضرت موسی(ع) کیلئے یوشع تھے،
اور حضرت عیسی(ع) کیلئے صاحب یاسین،
اور رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ کیلئے حضرت علی علیه السلام ہیں۔
۴۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین صحابہ:
(۱)کعب بن مالک
(۲)ہلال بن امیہ
(۳)مرارہ بن ربیع
ان تینوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے حکم کے باوجود حضور کے حکم کی خلاف ورزی کی اور جنگ میں نہیں گئے۔
ان تینوں سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔
۵۔ مومنوں کو 'صادقین' کے ساتھ ہوجانے کا حکم) (آیت١١٩)
روایات میں 'صادقین' کا مصداق حضرت علی(ع) -خصوصا- اور اهل بیت اطهار(ع) کو -عموما- بتایا گیا۔
🔰 (۲) سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید (رازق ، مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللہ ہی ہے)۔آیت:۳۱
بتوں کو شفیع قرار دینے کا نظریہ باطل ہے۔آیت۱۸)
۲۔ رسالت (اور اس کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے مذکور ہیں۔)
اس کے علاوہ ھدایت کرنے والے کا معیار دیا گیا اور حسکانی کہتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا اس کا مصداق (اللہ اور رسول (ص) کے بعد) علی(ع) ہیں؛ کیونکہ علی(ع) نے بغیر اسکے کہ (رسول کے علاوہ کسی اور سے) تعلیم حاصل کی ہو، صحیح فیصلے کرتے ہیں۔)
۳۔ قیامت (روز قیامت سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱)
۴۔ قرآن کی عظمت (یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱)
الف) حضرت نوح (ع) کا قصہ:
حضرت نوح (ع) نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔
- یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضرت ختمی مرتبت(ص) نے بھی اپنی امت کی نجات کیلئے اپنے اہلبیت(ع) کو سفینہ قرار دیا اور اس میں سوار ہونے والوں کی نجات کی ضمانت لی۔
ب) حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے سمندر میں راستے بنادیے۔
ج) حضرت یونس علیہ السلام:
انھی کے نام پر اس سوره کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً یونس آیا ہے،
اور دو جگہ(سورۂ یونس اور سورۂ قلم میں) اللہ نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں:
1. ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔
2. دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔
قصہ:
حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگللیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔
_اس کے علاوہ سورہ یونس میں اہلبیت اطهار(ع) کی فضیلت کے چند نکتے:_
* - آیت۲۵؛ صراط مستقیم روایتوں نے حضرت علی(ع) کو بیان کیا۔
* - آیت۵۳؛ نبی کریم(ص) کو اہل مکہ کے سوال کا جواب۔
ان کا سوال روایتوں نے ذکر کیا کہ حضرت علی(ع) کے امام ہونے کے بارے میں تھا۔
* - آیت۵۸؛ اللہ کے فضل اور رحمت کا ذکر، جسے احادیث نے اللہ کا فضل یعنی رسول خدا(ص) اور اللہ(عزوجل) کی رحمت، حضرت علی(ع) کو بیان کیا۔
* - آیت۶۲؛ اس آیت میں ذکر ہونے والے اولیائے الہی روایت نے حضرات علی(ع)، حمزہ، جعفر و عقیل کو کہا۔
التماس دعا
#بہار_قرآن 🌺📗🌺
گیارھواں پارہ
اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ یونس مکمل
🔰 (۱) سورۂ توبہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ منافقین کی مذمت
۲۔ حقیقی شہدا کی نو صفات
۳۔ سابقون الاولون سے اللہ کی رضایت کا اعلان
۴۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین صحابہ
۵۔ مومنوں کو 'صادقین' کے ساتھ ہوجانے کا حکم
۱۔ منافقین کی مذمت:
اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے نبی(ص) کو خبر دے دی،
نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی،
اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا،
رسول اکرم(ص) کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا اور منافقین سے منہ پھیرلینے کا حکم دے دیا گیا۔
۲۔ حقیقی شہدا کی نو صفات:
(۱)توبہ کرنے والے
(۲)عبادت کرنے والے
(۳)حمد کرنے والے
(۴)روزہ رکھنے والے
(۵)رکوع کرنے والے
(۶)سجدہ کرنے والے
(۷)نیک کاموں کا حکم کرنے والے
(۸)بری باتوں سے منع کرنے والے
(۹)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے
۳۔ سابقون الاولون سے اللہ کی رضایت کا اعلان
روایت میں آیا کہ سابقون اولون کا مصداق حضرت موسی(ع) کیلئے یوشع تھے،
اور حضرت عیسی(ع) کیلئے صاحب یاسین،
اور رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ کیلئے حضرت علی علیه السلام ہیں۔
۴۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین صحابہ:
(۱)کعب بن مالک
(۲)ہلال بن امیہ
(۳)مرارہ بن ربیع
ان تینوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے حکم کے باوجود حضور کے حکم کی خلاف ورزی کی اور جنگ میں نہیں گئے۔
ان تینوں سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔
۵۔ مومنوں کو 'صادقین' کے ساتھ ہوجانے کا حکم) (آیت١١٩)
روایات میں 'صادقین' کا مصداق حضرت علی(ع) -خصوصا- اور اهل بیت اطهار(ع) کو -عموما- بتایا گیا۔
🔰 (۲) سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید (رازق ، مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللہ ہی ہے)۔آیت:۳۱
بتوں کو شفیع قرار دینے کا نظریہ باطل ہے۔آیت۱۸)
۲۔ رسالت (اور اس کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے مذکور ہیں۔)
اس کے علاوہ ھدایت کرنے والے کا معیار دیا گیا اور حسکانی کہتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا اس کا مصداق (اللہ اور رسول (ص) کے بعد) علی(ع) ہیں؛ کیونکہ علی(ع) نے بغیر اسکے کہ (رسول کے علاوہ کسی اور سے) تعلیم حاصل کی ہو، صحیح فیصلے کرتے ہیں۔)
۳۔ قیامت (روز قیامت سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱)
۴۔ قرآن کی عظمت (یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱)
الف) حضرت نوح (ع) کا قصہ:
حضرت نوح (ع) نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔
- یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضرت ختمی مرتبت(ص) نے بھی اپنی امت کی نجات کیلئے اپنے اہلبیت(ع) کو سفینہ قرار دیا اور اس میں سوار ہونے والوں کی نجات کی ضمانت لی۔
ب) حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے سمندر میں راستے بنادیے۔
ج) حضرت یونس علیہ السلام:
انھی کے نام پر اس سوره کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً یونس آیا ہے،
اور دو جگہ(سورۂ یونس اور سورۂ قلم میں) اللہ نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں:
1. ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔
2. دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔
قصہ:
حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگللیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔
_اس کے علاوہ سورہ یونس میں اہلبیت اطهار(ع) کی فضیلت کے چند نکتے:_
* - آیت۲۵؛ صراط مستقیم روایتوں نے حضرت علی(ع) کو بیان کیا۔
* - آیت۵۳؛ نبی کریم(ص) کو اہل مکہ کے سوال کا جواب۔
ان کا سوال روایتوں نے ذکر کیا کہ حضرت علی(ع) کے امام ہونے کے بارے میں تھا۔
* - آیت۵۸؛ اللہ کے فضل اور رحمت کا ذکر، جسے احادیث نے اللہ کا فضل یعنی رسول خدا(ص) اور اللہ(عزوجل) کی رحمت، حضرت علی(ع) کو بیان کیا۔
* - آیت۶۲؛ اس آیت میں ذکر ہونے والے اولیائے الہی روایت نے حضرات علی(ع)، حمزہ، جعفر و عقیل کو کہا۔
التماس دعا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں